14
1 ایوّب نے کہا ، آدمی جو عورت سے پیدا ہو تا ہے ،
مصیبت سے بھری ایک چھو ٹی زندگی جیتا ہے۔
2 انسان کی زندگی ایک پھول کی مانند ہے جو جلد کھِلتا ہے اور پھر مُرجھا جا تا ہے۔
انسان کی زندگی ایک سایہ کی طرح ہے جو تھوڑی دیر ٹکتا ہے اور غائب ہو جا تا ہے۔
3 اے خدا ! کیا تُو میرے جیسے شخص کو دیکھے گا ؟ کیا تو میرے ساتھ عدالت میں آئے گا
تا کہ ہم دونوں اپنے بحث کو سامنے رکھ سکیں۔
4 “ناپاک چیزمیں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے ؟ کو ئی نہیں !
5 انسان کی زندگی محدود ہے۔
انسان کے مہینو ں کی تعداد خدا نے مقرر کر دی ہے۔
تُو نے انسان کے لئے جو حد باندھی ہے اسے کو ئی بھی نہیں بدل سکتا۔
6 اس لئے اے خدا ! تُو ہم پر نظر رکھنا چھوڑ دے۔
ہم لوگو ں کو اکیلا چھوڑدے۔ ہمیں اپنی سخت زندگی کا مزہ لینے دے جب تک کہ ہمارا وقت ختم نہیں ہو جا تا۔
7 “وہاں ایک درخت کے لئے امید ہے۔
اگر اسے کا ٹ کر گِرا دیا جا تا ہے تو وہ پھر سے بڑھ سکتا ہے۔
وہ لگا تار شاخیں باہر نکالتا رہے گا۔
8 چاہے اس کی جڑیں زمین میں پُرانی کیوں نہ ہو جا ئیں
اور اس کا تنا چاہے مٹی میں کیوں نہ مر جا ئے۔
9 تو بھی پانی ملنے پر وہ پھر سے بڑھنے لگے گا۔
اور نئے پو دے کی طرح شاخیں نکالے گا۔
10 لیکن جب ایک آدمی مر جا تا ہے تو وہ ختم ہو جا تا ہے !
جب آدمی مر تا ہے تو وہ چلا جا تا ہے۔
11 ندی کے سوکھ جانے تک تم سمندر کا سارا پانی نکال سکتے ہو ،
لیکن آدمی مرا ہوا ہی رہے گا۔
12 جب کو ئی شخص مر جا تا ہے وہ نیچے لیٹ جا تا ہے وہ پھر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
مرے ہو ئے آدمی کے جاگنے تک آسمان غائب ہو جا ئے گا۔
نہیں ، لوگ اس نیند سے اُٹھ نہیں سکتے ہیں۔
13 “ کاش! تُو مجھے میری قبر میں چھپا لیتا جب تک تیرا قہر بیٹھ نہ جا تا۔
پھر کو ئی وقت میرے لئے مقرر کر کے تُو مجھے یا د کرتا۔
14 اگر کو ئی انسان مر جا ئے تو وہ اپنی زندگی واپس پا ئے گا؟
میں تب تک انتظار کروں گا ،جب تک کہ مجھے کرنا چا ہئے
اور جب تک کہ میں آزاد نہ ہو جا ؤں۔
15 اے خدا ! توُ مجھے بُلا ئے گا اور میں تجھے جواب دوں گا۔
اور تب میں جسے تُو نے پیدا کیا ہے تیرے لئے اہم ہو جا ؤں گا۔
16 تُو میرے ہر قدم کا جسے میں اٹھا تا ہوں نظر رکھے گا
لیکن تو میرے گنا ہوں پر نظر نہیں رکھے گا۔
17 تو میرے گنا ہو ں کو ایک تھیلی میں رکھے گا۔
اس پر مہر لگا کر اسے دور پھینک دے گا !
18 “پہاڑ گِرتا ہے اور ریزہ ریزہ ہو جا تا ہے۔
بڑی بڑی چٹان ٹکڑوں میں ٹوٹ جا تی ہیں اور گِرپڑتی ہیں۔
19 پتھروں کے اوپر سے بہنے وا لا پانی اسے گھِس ڈالتا ہے ،
سیلاب زمین کی کی مٹی کو بہا کر لے جا تا ہے۔
اس طرح خدا ! تو انسان کی امید کو بر باد کر دیتا ہے اور پھر تو چلا جا تا ہے۔
20 تو اسے پو ری طرح شکست دیتا ہے۔ اور پھر تو چلا جا تا ہے تو اسے مایوس کر تا ہے۔
اور ہمیشہ کے لئے موت کی جگہ میں بھیج دیتا ہے۔
21 اگر اس کے بیٹے کبھی عزت پاتے ہیں تو اسے کبھی اس کا پتہ نہیں چل پاتا ہے۔
اگر اس کے بیٹے کبھی ذلیل ہو تے ہیں تو وہ اسے کبھی نہیں دیکھ پاتا۔
22 وہ شخص اپنے جسم میں درد محسوس کر تا ہے
اور وہ صرف اپنے لئے چیخ و پکار کر تا ہے۔